Mohsin naqvi the legend

دل کی لغزش ہے نہ خطا ہے کوئی
بس یونہی روٹھہ گیا ہے کوئی

میں نے رک رک کے تجھے یاد کیا
دل میں جب درد اٹھا ہے کوئی

یا ہوا خاک اڑاتی ہو گی
یا مجھے ڈھونڈ رہا ہے کوئی

موت آتی ہے نہ تو آتا ہے
یہ بھی جینے کی سزا ہے کوئی

اب وہ ملتا ہے تو یوں لگتا ہے
سلسلہ ٹوٹ گیا ہے کوئی

سرخ ہے شہر کی شب کا چہرہ
پھر کہیں قتل ہوا ہے کوئی

اے بچھڑ کر نہ پلٹنے والے
تیرے رستے میں کھڑا ہے کوئی

شل ہوۓ ہاتھہ تو سوچا ہم نے
لوگ کہتے تھے خدا ہے کوئی

رقص کرتے ہیں صبا کے جھونکے
شاخ پر پھول کھلا ہے کوئی

اے صبا یاد دلانا اس کو
اب اسے بھول چکا ہے کوئی

پھر میرے پھول کتابیں میری
راہ میں چھوڑ گیا ہے کوئی

ایک آوارہ پرندہ محسن
وسعت عرض و سما ہے کوئی

محسن نقوی

Comments

Popular posts from this blog

ہم نا سمجھے تیری نظروں کا تقاضا کیا ہے کبھی جلوہ کبھی پردہ----- یہ تماشا کیا ہے

ھم بتوں کو جو پیار کرتے ھیں نقلِ پروردگار کرتے ھیں

زیادہ پاس مت آنا !