Jaun Elia



"شاید"


میں شاید تم کو یکسر بھولنے والا ہوں
شاید' جانِ جاں شاید
کہ اب تم مجھ کو پہلے سے زیادہ یاد آتی ہو
ہے دل غمگیں' بہت غمگیں
کہ اب تم یاد دل وارانہ آتی ہو۔
شمیمِ دُور ماندہ ہو
بہت رنجیدہ ہو مجھ سے
مگر پھر بھی
مشامِ جاں میں میرے آشتی مندانہ آتی ہو
جدائ میں بلا کا التفاتِ محرمانہ ہے
قیامت کی خبرگیری ہے
بے حد ناز برداری کا عالم ہے
تمہارے رنگ مجھ میں اور گہرے ہوتے جاتے ہیں
میں ڈرتا ہوں
مرے احساس کے اس خواب کا انجام کیا ہوگا! 
یہ میرے اندرونِ ذات کے تاراج گر'
جذبوں کے بیری وقت کی سازش نہ ہو کوئ
تمہارے اس طرح ہر لمحہ یاد آنے سے
دل سہما ہوا سا ہے
تو پھر تم کم ہی یاد آؤ
متاعِ دل' متاعِ جاں تو پھر تم کم ہی یاد آؤ
بہت کچھ بہہ گیا ہے سیلِ ماہ و سال میں اب تک
سبھی کچھ تو نہ بہہ جاۓ
کہ میرے پاس رہ بھی کیا گیا ہے
کچھ تو رہ جاۓ۔۔۔! 

(جؤن ایلیاء)

Comments

Post a Comment

Popular posts from this blog

ہم نا سمجھے تیری نظروں کا تقاضا کیا ہے کبھی جلوہ کبھی پردہ----- یہ تماشا کیا ہے

ھم بتوں کو جو پیار کرتے ھیں نقلِ پروردگار کرتے ھیں

زیادہ پاس مت آنا !