فوزی کو اس کے مقام پر اپنی بھی کچھ خبر نہیں کانٹوں پہ کھینچ لے گئے ہمکو سراب ریت کےفوزیہ شیخ

اترے ہیں میرے شہر میں ایسے عذاب ریت کے
آنکھیں تمام ریت کی آنکھوں میں خواب ریت کے
چلتی  ھے   رات بھر  یہاں  باد ِ غبار ِ  تشنگی ۔
کھلتے ہیں شاخِ  د ل پہ بھی اجڑے گلاب ریت کے
لکھے   ہوا  نے ساحلوں کے بے مراد  ورق   پر
کتنے سوال  آ ب کے  کتنے   جواب  ریت کے ۔۔
صحرا ئے  زندگی   میں  اب  سایا نہیں  شجر نہیں
پیروں میں آبلے  مرے سر  پہ   سحاب   ریت کے
کیسے بچاؤں آندھیوں سے اپنے  اس  وجود کو
خیمہ  ءِ جان ریت کا  '، اس پہ طناب ریت  کے
فوزی  کو اس کے مقام  پر  اپنی بھی کچھ خبر نہیں
کانٹوں پہ  کھینچ  لے گئے ہمکو  سراب  ریت  کے
فوزیہ شیخ

Comments

Popular posts from this blog

ہم نا سمجھے تیری نظروں کا تقاضا کیا ہے کبھی جلوہ کبھی پردہ----- یہ تماشا کیا ہے

ھم بتوں کو جو پیار کرتے ھیں نقلِ پروردگار کرتے ھیں

زیادہ پاس مت آنا !