میں زخم زخم بدن لے کے چل دیا محسن وہ جب بھی اپنی قبا پر کنول سجا کے ملا . . .محسن نقوی
نظر میں زخم تبسم چھپا چھپا کے ملا
خفا تو تھا وہ مگر مجھ سے مسکرا کے ملا
وہ ہمسفر کے میرے ظنز پے ہنسا تھا بہت
ستم ظریف مجھے آئینہ دکھا کے ملا
میرے مزاج پہ حیران ہے زندگی کا شعور
میں اپنی موت کو اکثر گلے لگا کے ملا
میں اس سے مانگتا کیا خون بہا جوانی کا
کے وہ بھی آج مجھے اپنا گھر لٹا کے ملا
میں جس کو ڈھونڈ رہا تھا نظر کے رستے میں
مجھے ملا بھی تو ظالم نظر جھکا کے ملا
میں زخم زخم بدن لے کے چل دیا محسن
وہ جب بھی اپنی قبا پر کنول سجا کے ملا . . .
محسن نقوی
Comments
Post a Comment