ماں کا خواب
میں سوئی جو اک شب تو دیکھا یہ خواببڑھا اور جس سے مرا اضطراباندھیرا ہے اور راہ مِلتی نہیںیہ دیکھا کہ مَیں جا رہی ہوں کہیںجو کچھ حوصلہ پا کے آگے بڑھیلرزتا تھا ڈر سے مرا بال بال قدم کا تھا دہشت سے اُٹھنا محالدِیے سب کے ہاتھوں میں جلتے ہوئےتو دیکھا قطار ایک لڑکوں کی تھی زَمرّد سی پوشاک پہنے ہوئے وہ چُپ چاپ تھے آگے پیچھے رواںوہ پیچھے تھا اور تیز چلتا نہ تھاخدا جانے جانا تھا اُن کو کہاں اسی سوچ میں تھی کہ میرا پِسر مجھے اُس جماعت میں آیا نظرجُدائی میں رہتی ہوں مَیں بے قراردِیا اُس کے ہاتھوں میں جلتا نہ تھا کہا مَیں نے پہچان کر، میری جاں! مجھے چھوڑ کر آ گئے تم کہاں؟دیا اُس نے مُنہ پھیر کر یوں جوابپروتی ہوں ہر روز اشکوں کے ہار نہ پروا ہماری ذرا تم نے کی گئے چھوڑ، اچھّی وفا تم نے کی! جو بچّے نے دیکھا مرا پیچ و تابسمجھتی ہے تُو ہو گیا کیا اسے؟رُلاتی ہے تجھ کو جُدائی مری نہیں اس میں کچھ بھی بھلائی مری یہ کہہ کر وہ کچھ دیر تک چُپ رہا دِیا پھر دِکھا کر یہ کہنے لگاترے آنسوؤں نے بُجھایا اسے!
By Allama Muhammad Iqbal
Comments
Post a Comment