شمع و پروانہ

پروانہ تجھ سے کرتا ہے اے شمع! پیار کیوں
یہ جانِ بے قرار ہے تجھ پر نثار کیوں
آدابِ عشق تُو نے سِکھائے ہیں کیا اسے؟
سیماب وار رکھتی ہے تیری ادا اسے کرتا ہے یہ طواف تری جلوہ گاہ کا
آزارِ موت میں اسے آرامِ جاں ہے کیا؟
پھُونکا ہُوا ہے کیا تری برقِ نگاہ کا؟ شعلے میں تیرے زندگیِ جاوداں ہے کیا؟
ننھّے سے دل میں لذّتِ سوز و گداز ہے
غم خانۀ جہاں میں جو تیری ضیا نہ ہو اس تفتہ دل کا نخلِ تمنا ہرا نہ ہو گِرنا ترے حضور میں اس کی نماز ہے
کِیڑا ذرا سا، اور تمنّائے روشنی!
کچھ اس میں جوشِ عاشقِ حُسنِ قدیم ہے چھوٹا سا طُور تُو، یہ ذرا سا کلیمِ ہے
پروانہ، اور ذوقِ تماشائے روشنی

By Allama Muhammad Iqbal

Comments

Popular posts from this blog

ہم نا سمجھے تیری نظروں کا تقاضا کیا ہے کبھی جلوہ کبھی پردہ----- یہ تماشا کیا ہے

ھم بتوں کو جو پیار کرتے ھیں نقلِ پروردگار کرتے ھیں

زیادہ پاس مت آنا !