احمد ندیم قاسمی

تُجھے کھو کر بھی تُجھے پاؤں جہاں تک دیکھُوں
حُسنِ یزداں سے تُجھے حُسنِ بُتاں تک دیکھُوں
تُو نے یوں دیکھا ہے جیسے کبھی دیکھا ہی نہ تھا
مَیں تو دِل میں تِرے قدموں کے نِشاں تک دیکھُوں
صِرف اِس شوق میں پُوچھی ہیں ہزاروں باتیں
مَیں تِرا حُسن تِرے حُسنِ بیاں تک دیکھُوں
میرے ویرانہء جاں میں تیری یادوں کے طُفیل
پھُول کِھلتے ہُوئے نظر آتے ہیں جہاں تک دیکھُوں
وقت نے ذہن میں دُھندلا دیئے تیرے خدوخال
یوں تو مَیں ٹُوٹتے تاروں کا دُھواں تک دیکھُوں
دِل گیا تھا تو یہ آنکھیں بھی کوئی لے جاتا
مَیں فقط ایک ہی تصویر کہاں تک دیکھُوں
ایک حقیقت سہی فِردوس میں حُوروں کا وُجُود
حُسنِ اِنساں سے نِمٹ لُوں تو وہاں تک دیکھوں
احمد ندیم قاسمی

Comments

Popular posts from this blog

ہم نا سمجھے تیری نظروں کا تقاضا کیا ہے کبھی جلوہ کبھی پردہ----- یہ تماشا کیا ہے

ھم بتوں کو جو پیار کرتے ھیں نقلِ پروردگار کرتے ھیں

زیادہ پاس مت آنا !