اگر چراغ بھی آندھی سے ڈر گئے ہوتے تو سوچیے کہ اجالے کدھر گئے ہوتے

اگر چراغ بھی آندھی سے ڈر گئے ہوتے

تو سوچیے کہ اجالے کدھر گئے ہوتے

یہ میرے دوست مرے چارہ گر مرے احباب

نہ چھیڑتے تو مرے زخم بھر گئے ہوتے

کوئی نگاہ جو اپنی بھی منتظر ہوتی

تو ہم بھی شام ڈھلے اپنے گھر گئے ہوتے

اگر وہ میری عیادت کو آ گیا ہوتا

تو دوستوں کے بھی چہرے اتر گئے ہوتے

ہمیں تو شوق سخن نے سمیٹ رکھا ہے

وگرنہ ہم تو کبھی کے بکھر گئے ہوتے

انہیں بھی مجھ سے محبت تو ہے نفس لیکن

میں پوچھتا تو یقیناً مکر گئے ہوتے

نفس انبالوی

Comments

Popular posts from this blog

ہم نا سمجھے تیری نظروں کا تقاضا کیا ہے کبھی جلوہ کبھی پردہ----- یہ تماشا کیا ہے

ھم بتوں کو جو پیار کرتے ھیں نقلِ پروردگار کرتے ھیں

زیادہ پاس مت آنا !