آرزوئیں فضول ہوتی ہیں 

آرزوئیں فضول ہوتی ہیں 
گویا کاغذ کے پھول ہوتی ہیں 

ہر کسی نام پر نہیں رکتیں 
دھڑکنیں با اصول ہوتی ہیں 

پتھروں کے خداؤں کے آگے 
التجائں فضول ہوتی ہیں 

کوئی میرے لبوں کو بھی لا دے 
جو دعائیں قبول ہوتی ہیں 

خواب ٹوٹیں یا بکھر جایں 
قیمتیں کب وصول ہوتی ہیں¡

Comments

Popular posts from this blog

ہم نا سمجھے تیری نظروں کا تقاضا کیا ہے کبھی جلوہ کبھی پردہ----- یہ تماشا کیا ہے

ھم بتوں کو جو پیار کرتے ھیں نقلِ پروردگار کرتے ھیں

زیادہ پاس مت آنا !