پھر یوں ہوا کہ
پھر یوں ہوا کہ وقت کے تیور بدل گئے
پھر یوں ہوا کہ راستے یکسر بدل گئے
پھر یوں ہوا کہ منزلیں دشوار ہو گئیں
پھر یوں ہوا کہ خواہشیں مسمار ہو گئیں
پھر یوں ہوا کہ حشر کے سامان ہو گئے
پھر یوں ہوا کہ شہر بیابان ہو گئے
پھر یوں ہوا کہ گرد سے آئینے اَٹ گئے
پھر یوں ہوا کہ آنکھ میں دریا سمٹ گئے
پھر یوں ہوا کہ رابطے سورج سے کٹ گئے
پھر یوں ہوا کہ رنگ گلابوں سے ہٹ گئے
پھر یوں ہوا کہ پاؤں سے صحرا لپٹ گئے
پھر یوں ہوا کہ یار گھروں کو پلٹ گئے
پھر یوں ہوا کہ لوگ قبیلوں میں بٹ گئے
پھر یوں ہوا کہ رنگتِ عارض جھلس گئی
پھر یوں ہوا کہ زلف ہوا کو ترس گئی
پھر یوں ہوا کہ ٹوٹ کے شیشے بکھر گئے
پھر یوں ہوا کہ اپنے سبھی خواب مر گئے
پھر یوں ہوا کہ راحتیں کافور ہو گئیں
پھر یوں ہوا کہ بستیاں بے نور ہو گئیں
پھر یوں ہوا کہ غلبۂ آفات ہو گیا
پھر یوں ہوا کہ قتلِ مساوات ہو گیا
پھر یوں ہوا کہ ظلمتیں ہمدوش ہو گئیں
پھر یوں ہوا کہ صبحیں سیہ پوش ہو گئیں
Comments
Post a Comment