دسمبر کتنا مشکل ہے صبر کرنا نہ کوئی جینا نہ کوئی مرنا تم کو یاد ہے ؟ وہ شام فرقت میں نے رو کر تمہیں کہا تھا کہیں بھی جانا کہیں بھی رہنا مگر دسمبر کی سرد راتوں میں لوٹ آنا نہیں نہ آئے ٹھہر ٹھہر کر ہر ایک لمحہ مجھے ستائے ہر ایک کروٹ پہ تم کو ڈھونڈوں اتنی ہمت بھی تو نہیں ہے کہ زہر پی لوں نیم شب کو امڈنے والی خنک ہوائیں بدن جلائیں میرے دل کے تمام نغمے تمہیں بلائیں کپکپاتے لبوں کی لرزش ماند پڑنے لگی ہے آ جا زندگی کو تری جدائی سے ہار ہونے لگی ہے آ جا بپھر رہا ہے بیمار آنکھوں میں اک سمندر مجھے یہ ڈر ہے نہ آخری ہو یہی دسمبر ( معصومہ رضا ) 😢😢😢😢😢