میثم علی آغا

کہیں قبا  تو  کہیں  آستیں  بچھاتے  ہوئے
میں مر گیا  ہوں  وفاداریاں  نبھاتے  ہوئے

عجیب رات تھی آنکھیں ہی لے گئی میری
میں بجھ گیا تھا چراغِ  سحر جلاتے  ہوئے

سزا کے طور پہ آنکھیں نکال لیں اُس نے
میں رو پڑا تھا کوئی داستاں سناتے ہوئے

عجب نہیں تھا  کہ  دریا  لپیٹ  لیتا  مجھے
میں  بھاگ آیا ہوں تشنہ لبی بچاتے  ہوئے

درونِ چشم  کسی  خواب  کا  جنازہ  ہے
نکل  رہے  ہیں  عزادار  غم  مناتے  ہوئے

میثم علی آغا

Comments

Popular posts from this blog

ہم نا سمجھے تیری نظروں کا تقاضا کیا ہے کبھی جلوہ کبھی پردہ----- یہ تماشا کیا ہے

ھم بتوں کو جو پیار کرتے ھیں نقلِ پروردگار کرتے ھیں

زیادہ پاس مت آنا !