ساغر صدیقی

یہ جو دیوانے سے دو چار نظر آتے ہیں 
ان میں کچھ صاحب اسرار نظر آتے ہیں

تیری محفل کا بھرم رکھتے ہیں سو جاتے ہیں 
ورنہ یہ لوگ تو بیدار نظر آتے ہیں

دور تک کوئی ستارہ ہے نہ کوئی جگنو 
مرگ امید کے آثار نظر آتے ہیں

مرے دامن میں شراروں کے سوا کچھ بھی نہیں 
آپ پھولوں کے خریدار نظر آتے ہیں

کل جنہیں چھو نہیں سکتی تھی فرشتوں کی نظر 
آج وہ رونق بازار نظر آتے ہیں

حشر میں کون گواہی مری دے گا ساغرؔ 
سب تمہارے ہی طرفدار نظر آتے ہیں

Comments

Popular posts from this blog

ہم نا سمجھے تیری نظروں کا تقاضا کیا ہے کبھی جلوہ کبھی پردہ----- یہ تماشا کیا ہے

ھم بتوں کو جو پیار کرتے ھیں نقلِ پروردگار کرتے ھیں

زیادہ پاس مت آنا !