جوابِ شکوَہ
دل سے جو بات نکلتی ہے اثر رکھتی ہے پَر نہیں، طاقتِ پرواز مگر رکھتی ہے قُدسی الاصل ہے، رفعت پہ نظر رکھتی ہے خاک سے اُٹھتی ہے، گردُوں پہ گزر رکھتی ہے عشق تھا فتنہ گر و سرکش و چالاک مرا آسماں چِیر گیا نالۀ بے باک مرا پیرِ گردُوں نے کہا سُن کے، کہیں ہے کوئی بولے سیّارے، سرِ عرشِ بریں ہے کوئی چاند کہتا تھا، نہیں! اہلِ زمیں ہے کوئی کہکشاں کہتی تھی، پوشیدہ یہیں ہے کوئی کچھ جو سمجھا مرے شکوے کو تو رِضواں سمجھا مجھے جنّت سے نکالا ہوا انساں سمجھا تھی فرشتوں کو بھی حیرت کہ یہ آواز ہے کیا عرش والوں پہ بھی کھُلتا نہیں یہ راز ہے کیا! تا سرِ عرش بھی انساں کی تگ و تاز ہے کیا! آگئی خاک کی چٹکی کو بھی پرواز ہے کیا! غافل آداب سے سُکّانِ زمیں کیسے ہیں شوخ و گُستاخ یہ پستی کے مکیں کیسے ہیں! اس قدر شوخ کہ اﷲ سے بھی برہم ہے تھا جو مسجودِ ملائک، یہ وہی آدم ہے! عالِمِ کیف ہے، دانائے رموزِ کم ہے ہاں مگر عجز کے اسرار سے نامحرم ہے ناز ہے طاقتِ گفتار پہ انسانوں کو بات کرنے کا سلیقہ نہیں نادانوں کو آئی آواز، غم انگیز ہے افسانہ ...