Posts

Showing posts from April, 2017

جوابِ شکوَہ

دل سے جو بات نکلتی ہے اثر رکھتی ہے پَر نہیں، طاقتِ پرواز مگر رکھتی ہے قُدسی الاصل ہے، رفعت پہ نظر رکھتی ہے خاک سے اُٹھتی ہے، گردُوں پہ گزر رکھتی ہے عشق تھا فتنہ گر و سرکش و چالاک مرا آسماں چِیر گیا نالۀ بے باک مرا پیرِ گردُوں نے کہا سُن کے، کہیں ہے کوئی بولے سیّارے، سرِ عرشِ بریں ہے کوئی چاند کہتا تھا، نہیں! اہلِ زمیں ہے کوئی کہکشاں کہتی تھی، پوشیدہ یہیں ہے کوئی کچھ جو سمجھا مرے شکوے کو تو رِضواں سمجھا مجھے جنّت سے نکالا ہوا انساں سمجھا تھی فرشتوں کو بھی حیرت کہ یہ آواز ہے کیا عرش والوں پہ بھی کھُلتا نہیں یہ راز ہے کیا! تا سرِ عرش بھی انساں کی تگ و تاز ہے کیا! آگئی خاک کی چٹکی کو بھی پرواز ہے کیا! غافل آداب سے سُکّانِ زمیں کیسے ہیں شوخ و گُستاخ یہ پستی کے مکیں کیسے ہیں! اس قدر شوخ کہ اﷲ سے بھی برہم ہے تھا جو مسجودِ ملائک، یہ وہی آدم ہے! عالِمِ کیف ہے، دانائے رموزِ کم ہے ہاں مگر عجز کے اسرار سے نامحرم ہے ناز ہے طاقتِ گفتار پہ انسانوں کو بات کرنے کا سلیقہ نہیں نادانوں کو آئی آواز، غم انگیز ہے افسانہ ...

شکوَہ

کیوں زیاں کار بنوں، سُود فراموش رہوں فکرِ فردا نہ کروں محوِ غمِ دوش رہوں نالے بُلبل کے سُنوں اور ہمہ تن گوش رہوں ہم نَوا مَیں بھی کوئی گُل ہوں کہ خاموش رہوں جُرأت آموز مری تابِ سخن ہے مجھ کو شکوہ اﷲ سے، خاکم بدہن، ہے مجھ کو ہے بجا شیوۀ تسلیم میں مشہور ہیں ہم قصّۀ درد سُناتے ہیں کہ مجبور ہیں ہم سازِ خاموش ہیں، فریاد سے معمور ہیں ہم نالہ آتا ہے اگر لب پہ تو معذور ہیں ہم اے خدا! شکوۀ اربابِ وفا بھی سُن لے خُوگرِ حمد سے تھوڑا سا گِلا بھی سُن لے تھی تو موجود ازل سے ہی تری ذاتِ قدیم پھُول تھا زیبِ چمن پر نہ پریشاں تھی شمیم شرطِ انصاف ہے اے صاحبِ الطافِ عمیم بُوئے گُل پھیلتی کس طرح جو ہوتی نہ نسیم ہم کو جمعیّتِ خاطر یہ پریشانی تھی ورنہ اُمّت ترے محبوبؐ کی دیوانی تھی؟ ہم سے پہلے تھا عجب تیرے جہاں کا منظر کہیں مسجود تھے پتھّر، کہیں معبود شجر خُوگرِ پیکرِ محسوس تھی انساں کی نظر مانتا پھر کوئی اَن دیکھے خدا کو کیونکر تجھ کو معلوم ہے لیتا تھا کوئی نام ترا؟ قوّتِ بازوئے مسلم نے کیا کام ترا بس رہے تھے یہیں سلجوق...

John Elia

سارے رشتے تباہ کر آیا  دل برباد اپنے گھر آیا  آخرش خون تھوکنے سے میاں  بات میں تیری کیا اثر آیا  تھا خبر میں زیاں دل و جاں کا  ہر طرف سے میں بے خبر آیا  اب یہاں ہوش میں کبھی اپنے  نہیں آؤں گا میں اگر آیا  میں رہا عمر بھر جدا خود سے  یاد میں خود کو عمر بھر آیا  وہ جو دل نام کا تھا ایک نفر  آج میں اس سے بھی مکر آیا  مدتوں بعد گھر گیا تھا میں  جاتے ہی میں وہاں سے ڈر آیا  By John Elia